نامِ نبی سے جس نے من کو سجا لیا ہے
یادِ حسیں سے دل میں دیپک جلا لیا ہے
پھر روپ اس دہر کے لگتے ہیں سارے مدھم
ذکرِ نبی کو ہی گر سمرن بنا لیا ہے
شہرِ نبی سے نکہت تسکیں بنے گی دل کی
عفریتِ نفس کو گر تو نے گرا لیا ہے
بے شک زیاں نے دل کو خطرات میں ہے ڈالا
ہر بار فیضِ جاں نے اس کو بچا لیا ہے
مختارِ کل حبیبی رہبر حسیں ہیں کامل
دیکھیں دنیٰ میں اُن کو کس نے بلا لیا ہے
قرباں ہے جان میری ذاتِ حبیبِ رب پر
طاغوت کے اثر کو جس نے دبا لیا ہے
عشقِ حبیبِ رب دے عاشق کو بے نیازی
جس سے جہان اپنا اس نے سجا لیا ہے
محمود فضلِ حق سے ہوتا ہے پار وہ ہی
عشقِ نبی کو جس نے سینے لگا لیا ہے

11