لبوں سے کوئی جب بھی کم بولتا ہے |
تو پھر چشمِ پر نم سے غم بولتا ہے |
ہے اس واسطے میری آواز میں درد |
ترے ہجر کا اس میں غم بولتا ہے |
کبھی باتیں کرتے جو تھکتا نہیں تھا |
ترے بعد وہ شخص کم بولتا ہے |
گیا چھوڑ کے جو تجھے ، نام اس کا |
پھر اے دل تُو کیوں دم بدم بولتا ہے |
نہ دے بت کدے میں صدائیں اسے تُو |
اے دل کیا کوئی بھی صنم بولتا ہے؟ |
ترے نام کا ورد اتنا کیا ہے |
جہاں تجھ کو میرا دھرم بولتا ہے |
سبب حالِ خستہ کا پوچھے جو کوئی |
ترا نام پلکوں کا نم بولتا ہے |
ہر اک ظلم چپ چاپ سہتا تھا عاجز |
مگر درد اس کا قلم بولتا ہے |
معلومات