لبوں سے کوئی جب بھی کم بولتا ہے
تو پھر چشمِ پر نم سے غم بولتا ہے
ہے اس واسطے میری آواز میں درد
ترے ہجر کا اس میں غم بولتا ہے
کبھی باتیں کرتے جو تھکتا نہیں تھا
ترے بعد وہ شخص کم بولتا ہے
گیا چھوڑ کے جو تجھے ، نام اس کا
پھر اے دل تُو کیوں دم بدم بولتا ہے
نہ دے بت کدے میں صدائیں اسے تُو
اے دل کیا کوئی بھی صنم بولتا ہے؟
ترے نام کا ورد اتنا کیا ہے
جہاں تجھ کو میرا دھرم بولتا ہے
سبب حالِ خستہ کا پوچھے جو کوئی
ترا نام پلکوں کا نم بولتا ہے
ہر اک ظلم چپ چاپ سہتا تھا عاجز
مگر درد اس کا قلم بولتا ہے

0
2
41
اچھی غزل ہے

شکریہ حوصلہ افزائی کے لئے۔ آپ جیسے استادوں کی ہی شفقت ہے کہ ہم طلاب علم اس نورِ علم سے مستفیض ہو رہے ہیں

0