| دل نہیں رکھا ، تجھے دل میں مکیں رکھا ہے |
| تو نے بس دل ہے رکھا دل میں نہیں رکھا ہے |
| تو نے رکھا تھا جہاں اپنے قدم اے جانا |
| اُس جگہ میں نے صنم اپنی جبیں رکھا ہے |
| خود تو رہ سکتا نہیں یونہی جوان اور حسین |
| میں نے یادوں کو جواں اور حسیں رکھا ہے |
| ان کی باتوں پہ یقیں مجھ کو نہیں ہے لیکن |
| ان کے وعدوں پہ مگر پھر بھی یقیں رکھا ہے |
| حالِ دل اپنے سناؤں میں تجھے کیسے رئیس |
| حالِ دل میں نے اُٹھا اور کہیں رکھا ہے |
معلومات