دعا جو صبح کو کی تھی وہ میرے کام آئی |
وہ بن سنور کے سرِ عرش کر سلام آئی |
نگاہِ لطف نے مہمیز دی ہے جذبوں کو |
محبّتوں کو عطا کر کے جو دوام آئی |
جُنوں نے حسرتوں کے داغ دل میں چھوڑے ہیں |
کہ آرزو بھی خرد کے ہے زیرِ دام آئی |
کبھی جو قربتوں میں تیری دن گزارے ہیں |
ہمیں ہے ان دنوں کی یاد پھر مدام آئی |
ترے جو قرب کی خواہش بھی لب پہ آئی ہے |
نہیں ہے بھول کے اپنا کبھی مقام آئی |
سفر میں وقت کا احساس ہی نہیں رہتا |
گزر چکا ہے جو دن زندگی کی شام آئی |
گئے نہیں ہے گلی میں جو اس کی ہم طارق |
نہیں ہے دل کی تمنّا بھی زیرِ بام آئی |
معلومات