پھولوں سے شکایت نہ بہاروں سے گلہ ہے
خوشبو کی مخالف تُو گلستاں کی ہوا ہے
اے ابرِ گریزاں دلِ تشنہ پہ ترس کھا
کیوں پیاسے کو سودائی تو کرنے پہ تُلا ہے
یادوں کی کتابوں سے جو آتی ہیں کراہیں
کیا جانیے کس لفظ کے رونے کی صدا ہے
شبنم کی طرح آنسو کو اپنی تُو گہر کر
رونا ہی اگر تیرے مقدر میں لکھا ہے
نفرت نے تو ہر دور میں پہرے ہیں لگائے
پر زور یہاں کس کا محبت پہ چلا ہے

0
13