سحر ہے جاں فزا، پرضیا شام ہے
نعمتوں کی رسائی سر بام ہے
ہو گیا رب کا بندوں پہ انعام ہے
"فضل و برکت کا جم ماہ صیام ہے"
کر لیں آنکھوں کو اپنی ذرا اشکبار
مغفرت ہوچلی دیکھئے عام ہے
ہوتے ہیں بخت روشن شب قدر میں
مالک دوجہاں کا یہ اکرام ہے
روٹھے رب کو منانے کی کوشش کریں
مضمحل لغو کاری میں ہوں خام ہے
ہو غریبوں کا احساس دل میں کبھی
ان کی کرنا مسیحائی بھی کام ہے
درد مندوں سے ناصؔر محبت رہیں
شہر رمضان کا اصل پیغام ہے

0
11