مرا تو سفر نا مکمل رہا ہے |
ہمیشہ مرا دل ہی بے دل رہا ہے |
مجھے وہ ہی بیگانہ کرتا ہے خود سے |
سدا سے جو میرے بہم چل رہا ہے |
تری آرزو تو اسے بھی ہے شاید |
مرا سایہ جو آنکھیں یہ مَل رہا ہے |
شبِ ہجر کی تیرگی میں مرے پاس |
حسیں ایک تجھ سا دِیا جل رہا ہے |
تَجَرُّد میں میری یہ شب جا رہی ہے |
اُداسی میں اک اور دن ڈھل رہا ہے |
وہ بھی شخص تو اب کے بِکھْرا ہوا ہے |
کبھی جو بہادر تو دل تھل رہا ہے |
مرے اُوپر یہ کیسی مظلومیت ہے |
مخالف مرے ساتھ جو چل رہا ہے |
اُسی نے مجھے چھوڑا رستے میں تنہا |
کبھی جو مرے پاس ہر پل رہا ہے |
مجھے اُس نے بھی ہجر تحفہ دیا ہے |
مری آنکھ کا نور جو کل رہا ہے |
مری زندگی کا یہ سُورَج بھی ادریسؔ |
مُسَلْسَل روانی سے اب ڈھل رہا ہے |
معلومات