مرا تو سفر نا مکمل رہا ہے
ہمیشہ مرا دل ہی بے دل رہا ہے
مجھے وہ ہی بیگانہ کرتا ہے خود سے
سدا سے جو میرے بہم چل رہا ہے
تری آرزو تو اسے بھی ہے شاید
مرا سایہ جو آنکھیں یہ مَل رہا ہے
شبِ ہجر کی تیرگی میں مرے پاس
حسیں ایک تجھ سا دِیا جل رہا ہے
تَجَرُّد میں میری یہ شب جا رہی ہے
اُداسی میں اک اور دن ڈھل رہا ہے
وہ بھی شخص تو اب کے بِکھْرا ہوا ہے
کبھی جو بہادر تو دل تھل رہا ہے
مرے اُوپر یہ کیسی مظلومیت ہے
مخالف مرے ساتھ جو چل رہا ہے
اُسی نے مجھے چھوڑا رستے میں تنہا
کبھی جو مرے پاس ہر پل رہا ہے
مجھے اُس نے بھی ہجر تحفہ دیا ہے
مری آنکھ کا نور جو کل رہا ہے
مری زندگی کا یہ سُورَج بھی ادریسؔ
مُسَلْسَل روانی سے اب ڈھل رہا ہے

1
21
قافیوں پہ توجہ دیجیے - مکم مَل کا قافیہ بے دِل نہیں ہوتا -

سدا سے جو میرے بہم چل رہا ہے - میرے بہم نہیں ہوتا - میرے ساتھ بہم ہوتا ہے

اس کا کوئی مطلب نہیں بنتا "کبھی جو بہادر تو دل تھل رہا ہے"

"مری آنکھ کا نور جو کل رہا ہے " کل رہا ہے نحوی اعتبار سے غلط ہے آپ کو کہنا ہے کہ کل تک رہا ہے -

وزن میں لانے کے لیے مصرع کی گرامر نہیں غلط کر سکتے -