ہم تو کسی بھی در کے پابند ہی نہیں ہیں
ہوگا کہیں بھی سجدہ وہ در نہیں تو کیا ہے
وہ تو تری ہوس میں پیدا ہوا یہیں پر
پھر بھی تمہارا ثانی نوکر نہیں تو کیا ہے
جب بھی تمہیں میں دیکھوں ثانی سے ہی لڑائی
مجھ کو بتا کہ تو بھی کافر نہیں تو کیا ہے
یہ زلفیں کالی کالی کیوں کر گھٹا نہیں ہیں
یہ نیم باز آنکھیں ساغر نہیں تو کیا ہے
مشرق کے بت کدے میں تقلید کے پجاری
براہیم کم نہیں ہے آزر نہیں تو کیا ہے
قدموں میں تیرے ذرے لے حسرتِ شہادت
یہ تیری چال آخر نشتر نہیں تو کیا ہے
مجھ میں بھی غیرتیں ہیں تجھکو میں کیوں مناؤں
سارا جہاں ہے تو ہی دلبر نہیں تو کیا ہے

0
15