مرا ہے دل یا پھر بجھا چراغ ہے غریب کا |
لٹا ہے یوں کہ ہو وہ مال جیسے بد نصیب کا |
ہوا لہو لہو جگر تو دل بھی پاش پاش یہ |
سنا تھا باغباں نے حال جب سے عندلیب کا |
بہت ہے سہل دل مرے کو زخم دے کے چھوڑنا |
دعا مری تو مت اٹھائے بوجھ اس صلیب کا |
کریں گے ایک دن حساب ظلم تیرے دور کا |
صلیب خود اٹھاؤ گے ہے فیصلہ حسیب کا |
غرور چھوڑ دے کہ ایک روز ضعف آئے گا |
نہ پوچھے گا تجھے عزیز دور کا قریب کا |
سنو دبے قدم ہے موت بڑھ رہی تری طرف |
بجے گا کچھ ہی دیر میں یہاں طبل نقیب کا |
ملے گی ڈھیل تجھ کو ،ناں ملی کسی کو پہلے ہے |
ہے وار کارگر بہت حیات کے رقیب کا |
حیات کا سفر ہے درد اور تھکن بھرا ہوا |
ملی خوشی جسے وسیم ہے بڑے نصیب کا |
ہے وقتِ مرگ آج ہائے دید کی ہی تشنگی |
طبیب چھوڑ عکس ہی دکھا مجھے حبیب کا |
معلومات