ھَیَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ قَوْلِیْ إسْمَعْ
فَغَیْرَ دِیْنِ مُحَمَّدٍؐ لَاْ تَتْبَعْ
فَخَالِدُ ابْنُ وَلِیْدٍ وَابْنُ خَطَّابْ
لَأُسْوَۃٌ لَکَ فِیھِمَا اَیُّه‍َا الشَّابْ
لَحَاصِلٌ لَکَ قُوَّۃُ الْحَیْدَرْ
وَ عَزْمُ أبِی بَکَرٍ وَ نَظْمُ عُمَرْ
فَمَالَ إبْنِ عَفَّانَ إکْتَسِبْ
لِکَی اللّٰهُ أبَدًا لَا یَحْتَسِبْ
فَاُخْرُجْ مِنَ الزَّمَانِ وَ الْفَضَاءْ
وَلِتَصِلْ إلٰی رِیَاضِ الْجَنَّۃِ الْعُلَا
ه‍َيَا رُوْحَ مُحَمَّدِ النَّبِیِّ الْخَاتَمْ
تَیَقَّظْ أنْتَ وَ قَیِّظ کُلَّ الْعَالَمْ

2
84
. تـشــریــح
. ( شاہؔی تخیلات)


ھَیَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ قَوْلِیْ إسْمَعْ
فَغَیْرَ دِیْنِ مُحَمَّدٍؐ لَاْ تَتْبَعْ

اے جوانو سنو! محمد عربی صلی اللّٰه علیہ وسلم کے دین و شریعت کے علاوہ کسی اور تہذیب و تمدن ( مغرب) کی پیروی مت کرو ۔



فَخَالِدُ ابْنُ وَلِیْدٍ وَابْنُ خَطَّابْ
لَأُسْوَۃٌ لَکَ فِیھِمَا اَیُّه‍َا الشَّابْ

اے جوانو ! خالد ابن ولیدؓ اور عمرؓ بن خطاب کی زندگی میں بالخصوص، جذبۂ شہادت ، عزم و جنوں اور دینی غیرت و حمیت سے سرشار ان کی جوانی میں تمہارے لئے نمونہ اور بہترین آئیڈیل ہے کہ تم بھی ان کی طرح اپنی پسماندہ قوم ، اجڑی ہوئی ملت کے لئے کچھ کارہاۓ نمایاں انجام دو ۔



لَحَاصِلٌ لَکَ قُوَّۃُ الْحَیْدَرْ
وَ عَزْمُ أبِی بَکَرٍ وَ نَظْمُ عُمَرْ

سچ بات تو یہی ہے کہ تم وہ ہو کہ جنہیں قدرت نے قوتِ حیدرِ ؓکرار عطا کیا ہے کہ جس قوت سے تم دورِ حاضر کے درِ خیبر کو اکھاڑ سکتے ہو،
وہ عزمِ ابو بکرؓ صدیق سے نوازا ہے کہ جس سے تم بھی وہی جوہر دکھاسکتے ہو جو منکرین زکوۃ کے خلاف سیدنا ابو بکؓر صدیق نے دکھایا تھا اور کہا تھا کہ " خدا کی قسم اگر کوئی شخص حضور رسالت مآب ﷺ کی زندگی میں اونٹ کے ساتھ اونٹ باندھنے کا رسہ بھی زکوٰۃ میں دیتا تھا اور اب وہ اونٹ تو دے مگر رسہ نہ دے تو بھی میں اکیلا اس سے جہاد کروں گا کہ میں زندہ رہوں اور میرے سامنے میرے حبیب کے دین کو بدلا جائے ( أ یُبدلُ الدینُ وأنا حیٌّ)
اور اسی طرح حضرت فاروق اعظم عمرؓ بن خطاب کا وہ جوہر یگانہ بھی تمہیں عطا کیا گیا ہے کہ جس سے تم بھی بڑی بڑی سلطنتوں کے نظام کو حسنِ انداز میں ترتیب دے سکتے ہو
یہ اوصاف ثلاثہ تمہیں عطا کیا گیا ہے مگر تم ہو کہ اپنے آپ سے غافل ہو بیگانے ہو ،
خود کو پہچانو تو سب اب بھی سنور سکتا ہے ۔



فَمَالَ إبْنِ عَفَّانَ إکْتَسِبْ
لِکَی اللّٰهُ أبَدًا لَا یَحْتَسِبْ

جوانو! تم بھی عثمانؓ بن عفان کی طرح خوب خوب دولت کماؤ اور ان بیش بہا دولتوں سے اپنے دین و شریعت کی ایسی خدمت کرو کہ پھر اللہ تم سے اس کا حساب ہی نہ لے ۔



فَاُخْرُجْ مِنَ الزَّمَانِ وَ الْفَضَاءْ
وَلِتَصِلْ إلٰی رِیَاضِ الْجَنَّۃِ الْعُلَا

لہذا زمانے سے ، زمانے کے رنگ و بو سے اور زمانے کی رنگین فضا سے نکل کر مدینہ حضور ﷺ اور روضہ الجنہ کی پر بہار فضاؤں میں چلو اور دیکھو کہ کیسے کیسے عزم والے تھے جو آسمان ڈھا کر چلے گئے , تم بھی اسی پرانے گلشن کی باد صبا ہو لہذا تمہارا بھی یہ فرض ہے کہ خزاں رسیدہ گلشن کے لئے پیامِ بہار لاؤ ۔


ه‍َيَا رُوْحَ مُحَمَّدِ النَّبِیِ الْخَاتَمْ
تَیَقَّظْ أنْتَ وَ قَیِّظ کُلَّ الْعَالَمْ

اور اے روح محمدﷺ ! اے نبی خاتم کے جانشینو ! اے محمد عربی کے راج دلارو ! جاگو جاگو کہ شامِ غفلت گئی اب صبحِ نو تمہاری منتظر ہے ، غفلت کی چادر کو تارتار کرکے اٹھو اور پوری دنیائے اسلام کو بیدار کرو
بزبانِ اقبالؒ مرحوم؛

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے



(شاہؔی تخیلات)
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی




"یا معشر الشباب"
حضرت الاستاذ ( دیوان متنبی ) جناب عبد الخالق مدراسی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ) کی بارہا ترغیبوں اور دعاؤں کے نتیجے میں آخرش آج میں نے بھی
( اعظم اللغات و احسن اللسان ) عربی زبان میں اشعار کہنے کی جسارت کر ہی ڈالی اب سوچنا کیا

لہذا ماہرین عربی اور اہل ہنر حضرات سے رہنمائی کی بھی درخواست ہے اور ساتھ ہی ساتھ حوصلہ افزائی کا بھی طالب ہوں کہ بلاشبہ حوصلہ افزائی ہمارے بال و پر کو قوتِ پرواز بخشتی ہے

میری اردو شاعری ( ناقص ہی سہی ) میں حضرت الاستاذ جناب مصلح الدین صاحب قاسمی بستوی زید مجدھم العالیہ۔ ( استاذ الادب دارالعلوم دیوبند) کی بے پایاں محبت ، دعائیں اور مسلسل حوصلہ افزائی شامل حال رہی اور انہیں کی کوششوں ، دعاؤں اور قوت بخش حوصلہ افزائیوں ہی کا نتیجہ ہے کہ شاہؔی خاکسار اردو میں کچھ کہہ لیتا ہے وگرنہ میری حالت اس شعر سے کچھ کم نہ ہوتی " میرا منھ اور سرکار مدینہ کی ثنا خوانی "

نوٹ- یقیناً خامیاں تو ہوں گی ( بلکہ ہے ) کہ یہ میرے ابتدائی اشعار ہیں مگر شاہؔی خاکسار اس سے کہیں زیادہ آپ کی محبتوں کا طلبگار ہے

چند اشعار پیش خدمت ہے