بےچین رہتے تھے سکوں کا انتظار تھا
کیا دن تھے وہ کہ بےکلی میں بھی قرار تھا
کانٹے چبھاۓ راہ نے اے منزلیں بہت
مجھ سے مگر اسے نہ کبھی، کوئی عار تھا
اپنے جو ہوتے ہیں وہ سدا اپنے رہتے ہیں
اِن کے معاملوں مِیں مَیں کتنا گنوار تھا
طوفاں کو ساحلوں نے پکارا بہت مگر
طوفاں کے سر تو اور ہی طوفاں سوار تھا
نکلا نہ آنسو ایک بھی فرقت کی بات پر
کہنے کی بات ہے انہیں ہم سے بھی پیار تھا
اسکا گلہ نہیں ہمیں برباد ہم ہوۓ
دیکھا تماشہ اُس نے جب اجڑا دیار تھا

0
12