| اسی لیے تو سُکُونِ اَبَد میں رہتا ہوں |
| میں اپنی آگ کے شعلے کی حد میں رہتا ہوں |
| یہ پانچ، بارہ یہ چودہ یہ کیا بَہَتَّر ہے؟ |
| میں محو ایک خیالِ عدد میں رہتا ہوں |
| فقیہہِ شہر نے مجھ پر یہ اِفْتِرا باندھا |
| میں اپنے شوق کے زندانِ بد میں رہتا ہوں |
| مگر مرا گھر ہے اصل میں "جنون آباد" |
| گو ان دنوں تو میں شَہْرِ خِرَد میں رہتا ہوں |
| ہے اس لیے بھی مرا رو گلاب کی مانند |
| میں مُنْتَدَىءِ عدوِ حَسَد میں رہتا ہوں |
| لگن سے چاٹ رہا ہے یہ وقت میرا بدن |
| کہ جیتے جاگتے میں اک لحد میں رہتا ہوں |
| میں اپنی فکر کے کعبے کے قد تلک سوچوں |
| بس اس لیے ہی میں خطرے کی زد میں رہتا ہوں |
| زمانہ ساز نہیں ہوں میں اس لیے بَچّے! |
| صفِ طَویلِ ادیبان رَد میں رہتا ہوں |
| (ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات