| دل کے زندان سے یک مشت نکالی جائے |
| ہم سے اب یاد تمہاری نہ سنبھالی جائے |
| خانۂ وصل گمان اب جو مقفل ہونا |
| آخری چاہ کی میت ہے اٹھالی جائے |
| لوگ آنکھوں میں نمی دیکھیں تو رسوائی ہے |
| ایسے خالی ترے در سے نہ سوالی جائے |
| اب نہ جنبش ہے یہاں کوئی نہ روشن باتی |
| خاک آنکھوں میں کسی دشت کی ڈالی جائے |
| دکھ کے جنگل میں کہاں چاندنکل آتا ہے |
| فاقہ مستوں سے کہو عید منالی جائے |
| موسمِ ہجر کے بادل ہیں ذرا چھٹنے دیں |
| وصل کی دھوپ پہ کیچڑ نہ اُچھالی جائے |
| رقصِ بسمل ہے نہیں سہنا اذیت شؔیدا |
| دل کی ہر شاخِ ثمربار جُھکالی جائے |
معلومات