خیالِ خام کو تعبیر اِک نئی بخشی
وہ اک خیال جسے میں نے زندگی بخشی
نظر کو خواب دیے اور برہمی بخشی
پھر اُس کی یاد نے بھی آنکھ کو نمی بخشی
نسیمِ صبح چلی۔ جسمِ ناتواں لے کر
اُسی خیال نے پھر مجھ کو روشنی بخشی
ہوس کی آگ میں سب خواب جل گئے میرے
بدن نے لمس دیا اور اِک کمی بخشی
مقامِ جبر میں تم میرا مرتبہ دیکھو
ہر ایک زخم کو دیکھو نا نغمگی بخشی
سکوت پھیل گیا اور مرگ پھیل گئی
ترے خیال نے تب مجھ کو تازگی بخشی
سید ہادی حسن

0
52