| غریبِ شہر تو کب سے دہائی دیتا ہے |
| امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے |
| کہ تُجھ سے آگے مجھے کچھ نظر نہیں آتا |
| وہ میری آنکھ کو تُجھ تک رِسائی دیتا ہے |
| کسی کسی پہ ہی آتا ہے پیار اُس کو بھی |
| کسی کسی کو وہ ساری خُدائی دیتا ہے |
| ہو کیسے اُس کو خسارا بھلا زمانے میں |
| جو ماں کے ہاتھ میں اپنی کمائی دیتا ہے |
| ابھی تو ٹھیک سے دیکھا نہیں تجھے مَیں نے |
| مُحبتوں میں بھلا کیوں جدائی دیتا ہے |
| اُسی کے دم کی یہاں خیر مانگتا ہوں مَیں |
| جو رنج و غم سے مُجھے آشنائی دیتا ہے |
| کہ جب سے دل کو بنایا ہے آئینہ مانی |
| ہر ایک شخص ہی پتّھر دِکھائی دیتا ہے |
معلومات