دل میں طلب شگفتہ شاہِ حجاز کی
دلدارِ کبریا کی ذرہ نواز کی
مولا ثنائے جاناں ایسی زباں کو دے
جو کشف عام کر دے ہستی کے راز کی
مدحت سرا ہوں بلبل میری زبان سے
مضراب جانے ہستی اس دل کے ساز کی
عکسِ جمالِ یزداں پیشِ نظر رہے
دیکھے تجلیٰ دل بھی ہستی کے ناز کی
حاصل سکونِ دل ہو دیدِ حبیب سے
چاہت سوا کرے جو عمرِ دراز کی
طالب دلِ حزیں ہے دیدِارِ یار کا
ہر آن چاہے مجلس بندہ نواز کی
محمود موڑ لو گے ہر ما سوا سے منہ
گنجِ گراں ہے الفت دانائے راز کی

14