دل میں طلب شگفتہ شاہِ حجاز کی |
دلدارِ کبریا کی ذرہ نواز کی |
مولا ثنائے جاناں ایسی زباں کو دے |
جو کشف عام کر دے ہستی کے راز کی |
مدحت سرا ہوں بلبل میری زبان سے |
مضراب جانے ہستی اس دل کے ساز کی |
عکسِ جمالِ یزداں پیشِ نظر رہے |
دیکھے تجلیٰ دل بھی ہستی کے ناز کی |
حاصل سکونِ دل ہو دیدِ حبیب سے |
چاہت سوا کرے جو عمرِ دراز کی |
طالب دلِ حزیں ہے دیدِارِ یار کا |
ہر آن چاہے مجلس بندہ نواز کی |
محمود موڑ لو گے ہر ما سوا سے منہ |
گنجِ گراں ہے الفت دانائے راز کی |
معلومات