| ناز اُس کے اُٹھاتا ہُوں رُلاتا بھی مُجھے ہے |
| زُلفوں میں سُلاتا بھی، جگاتا بھی مُجھے ہے |
| آتا ہے بہُت اُس پہ مُجھے غُصّہ بھی لیکِن |
| پیار اُس پہ کبھی ٹُوٹ کے آتا بھی مُجھے ہے |
| در پے ہے مِری جان کے، جو پِیچھے پڑا ہے |
| وُہ دُشمنِ جاں دوستو بھاتا بھی مُجھے ہے |
| انجان بنا رہتا ہے، بیزار دِکھے، پر |
| وحشت میں، وہ تنہائی میں پاتا بھی مُجھے ہے |
| گر آئے جفا کرنے پہ، تَوبہ مِری تَوبہ |
| وُہ قِصّے وفاؤں کے سُناتا بھی مُجھے ہے |
| جنّت کی کوئی سیر کراتا ہے رفِیقو |
| دوزخ میں مگر کھینچ کے لاتا بھی مُجھے ہے |
| میں اُس کی دُعا بن کے مچلتا ہُوں لبوں پر |
| دِن رات وُہ ہونٹوں پہ سجاتا بھی مُجھے ہے |
| جو اسپ سمجھتا ہے لگاموں کو پکڑ کر |
| پھر شخص وہی ایڑھ لگاتا بھی مجھے ہے |
| وُہ جِیت کی اسناد مِرے نام لگا کر |
| خنجر سے کوئی گھاؤ لگاتا بھی مُجھے ہے |
| آتا ہے مِرے گھر کو سجانے کے لِیئے بھی |
| جب نِیند کُھلے چھوڑ کے جاتا بھی مُجھے ہے |
| پہلے تو بُلاتا ہے بڑے شوق سے حسرتؔ |
| پِھر ڈانٹ کے محفِل سے اُٹھاتا بھی مُجھے ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات