روزن سے ترے در کا میں دیدار کروں گا |
ظالم نے مرے پاؤں کی زنجیر بڑھادی |
دھل جاۓگناہو ں کے مرے داغ ہی سارے |
ایسی میں نے ایمان کی اکسیر بڑھا دی |
محفل میں سرِ عام مرا کر کے تماشہ |
اے یار ! تو نے تو مری توقیر بڑھادی |
مذہب نے سکھایا کہ نو ا مید کفر ہے |
چھیڑا جو اندھیروں نے تو تنویر بڑھادی |
بے چین بہت پینے شہادت کا تھے پیالہ |
قاسم کی طرف چاچا نے شمشیر بڑھادی |
معلومات