میں ہووئے کہاں سرخ روئی
ترے غم کو دل میں بسانا پڑے ہے
رہیں دیر و کعبہ کنیسہ کلیسا
جہاں بھی ترا آستانہ پڑے ہے
اسے ضد ہے سجدہ اسی شوخ کا ہو
پہ نادان دل کو بسانا پڑے ہے
یہ آزر کی الفت تو آساں نہیں ہے
بتوں کے بھی دل میں سمانا پڑے ہے
آییں گے یاں ہم بہ لطفِ بہاراں
اگر اب موسم سہانا پڑے ہے
اصولِ جنوں بھی بڑا سخت ٹھہرا
گلوں سے بھی دامن بچانا پڑے ہے
بے زنجیر پہنے بھی چارہ نہیں ہے
آدابِ محبت نبھانا پڑے ہے
اب میں بھی خوشی نہ پھولوں سماؤں
مرا نام بھی اب دیوانہ پڑے ہے
مرے دل کی باتیں ترے دل سے ملتیں
مگر پھر بھی قاصد بڑھانا پڑے ہے
کندن بھی بننا کوئی آساں نہیں ہے
محبت میں دل کو جلانا پڑے ہے
بہت دیر رو کے ابھی ثانی سویا
عجب ضد ہے تیری ستانا پڑے ہے
کبھی زخمِ دل کو دکھانا پڑے ہے
زمانے کو ورنہ بہانہ پڑے ہے

0
17