| نگاہِ شوق کو پھر آج اشکبار کیا |
| کہ تیری یاد نے پھر مجھ کو بے قرار کیا |
| اسی امید پہ آۓ گا آنے والا ابھی |
| تمام شب تری آمد کا انتظار کیا |
| ہزار بار محبت میں یوں تو جاں سے گئے |
| مگر وہ تیرِ نظر جس نے دل شکار کیا |
| لبادہ اوڑھ کے ظالم نے پارسائی کا |
| مجھے مری ہی نگاہوں میں شرمسار کیا |
| وہ شخص کہتا ہے دیکھو مجھے محبت سے |
| کہ جس نے رسوا محبت کو بار بار کیا |
| یہ تجربہ بھی مجھے زندگی میں خوب رہا |
| اسی نے دھوکہ دیا جس پہ اعتبار کیا |
| لگی ہیں تہمتیں مجھ پراسی کی جانب سے |
| خدایا ! جس پہ کبھی میں نے جاں نثار کیا |
| اسی کی یاد سے آباد ہے جہاں میرا |
| کہ جس نے محفلِ ہستی میں مجھ کو خوار کیا |
| نہیں ہے اس سے کوئی دل لگی نہیں شاہیؔ |
| یہ راز اس نے سرِ بزم آشکار کیا |
معلومات