افرنگ کی بوکھلاہٹِ دیرینہ کی تاریخ
اس صفحۂ ہستی پہ رقم ہے کہ نہیں ہے
توحید پرستوں سے وہی اس کا تجسس
دل میں ترے افرنگی صنم ہے کہ نہیں ہے
تہذیب کے عنوان سے اسلام کو بدنام
اے چشمِ حریفانہ شرم ہے کہ نہیں ہے
اسلام تو اسلام ہے یہ سب کو ہے معلوم
یہ بات مگر اس کو ہضم ہے کہ نہیں ہے
جوتے تلے انسانوں کو رکھا ہے اسی نے
پر تیرا یہ الزام ستم ہے کہ نہیں ہے

0
23