دل میرے میں ہیں کچھ نالے
تیرا کرم ہو کملی والے
ڈولے امت کی اب ناؤ
مانگیں کرم سخی رکھوالے
آقا زور میں ہے طغیانی
لاگے جان کے ہیں اب لالے
رسوائے جہاں تیرے بندے
مولا آن ہے تیرے حوالے
شاہی در سے یہ خیر کو مانگیں
آقا شانِ کریمی والے
جو کمبخت ہیں سارے صہونی
مولا قہر انہیں نتھ ڈالے
ہے قرآں ملا تجھے نوری
دیتا دان جو نور اجالے
تیرے فیض سدا ہیں عوامی
دیتے دان سدا ہیں نرالے
تیرے عشق میں گردوں گھومے
تیرے روپ کے سب متوالے
ہیں قرباں یہ تجھ پر شاہا
راہِ عشق پہ ہیں جو جیالے
یہ جو دہر عجیب ہے پھندا
تیرا دین یہ خوف ہے ٹالے
یہ محمود ہے تیرا بردہ
جو کہتے ہیں سب دل والے

24