نظم اردو
نیا ہے زمانہ نئی آگہی ہے
وہ بھی جانتا ہے جو بات ان کہی ہے
مگر ایک اس میں خرابی بڑی ہے
وی لاگوں کی عادت سبھی کو پڑی ہے
غلط اور سچائی گڈ مڈ ہوئی ہیں
برائی و نیکی بھی گڈ مڈ ہوئی ہے
انہیں دونوں کے بیچ ہم سب پھسے ہیں
انہیں کے شکنجے میں ہم بھی پھسے ہیں
جو سچائی پر خاک سی پڑ گئی ہے
ہٹانے کی اس کو ضرورت بڑی ہے
مگر کرنا پڑتا تلاش اب بھی سچ ہے
چھپایا گیا اب بھی پردے میں سچ ہے
یہ یو ٹوب پھیلائے نت جھوٹی خبریں
سماعت سے ٹکرائے نت جھوٹی خبریں
یہ وی لاگ والے بھی روز اک کہانی
سناتے ہیں سب کو نئی منہ زبانی
وہ سچ بولیں گے گر تو مر جائیں گے سب
وہ فاقے کریں گے کدھر جائیں گے سب
خریدار ان کو ملے جھوٹ کے ہیں
طلب گار ان کو ملے جھوٹ کے ہیں
انہیں جھوٹ بکنے کے ملتے ہیں پیسے
وہ سچ بول سکتے بھلا پھر ہیں کیسے
وہی بیچیں گے وہ جو چاہیں گے گاہک
تبھی تو نئے ان کے آئیں گے گاہک
اسی سے ہی انور چلے ان کی روٹی
اسی سے کماتے ہیں رقمیں وہ موٹی
انور نمانا

0
9