ستم ہے دکھ بھی ہمارے سمجھ نہیں پائے
عبث ہے شکوہ، بے چارے سمجھ نہیں پائے
سکون قلب خدا کو پکارنے میں ہے
اسے یہ مال کے مارے سمجھ نہیں پائے
ملال ہے بے رخی کے برتنے پر ان کے
نظر سے نکلے اشارے سمجھ نہیں پائے
نہ جانے پا کے اسے کھو دیا کہاں کیسے
نصیب کے یہ ستارے سمجھ نہیں پائے
ہے انتظار میں ناصؔر بچھائے پلکوں کو
سبب جدائی کا پیارے سمجھ نہیں پائے

0
30