| میں تو کتنی عبادات اس لیے بھی چھوڑ دیتا ہوں |
| جو میرے پیچھے چلتے ہیں وہ بدعت میں نہ پڑ جائیں |
| نہ بن جائے کہیں رجحان، نکلا کر کبھی گھر سے |
| تری ٹو میں لگیں ہیں سب جو عدت میں نہ پڑ جائیں |
| کبھی تو ٹوک تُو تیری بڑائی کرنے سے ہم کو |
| محبت سے کہیں آگے عقیدت میں نہ پڑ جائیں |
| بشارت اپنے لشکر کو کبھی مت دینا جنت کی |
| بھلا کر سب رضی اللہ غنیمت میں نہ پڑ جائیں |
| تمھیں کرنی ہے تو بے شک کرو مجھ سے محبت پر |
| ذرا یہ دھیان میں رکھ ہم سہولت میں نہ پڑ جائیں |
| رہے سب یاد ہم بھی دل لگانے آئے تھے تم بھی |
| بچھڑتے وقت ہم دونوں محبت میں نہ پڑ جائیں |
| نور شیر |
معلومات