بعد مرنے کے ! یار رہنے دے
اب نہ مجھ کو پکار رہنے دے
میرا صدمہ ابھی بھی تازہ ہے
ضد نہ کر سوگوار رہنے دے
تم سے ہو گا نہ میرے دکھ کا علاج
رہنے دے میرے یار رہنے دے
مجھ کو خود پر بھی اختیار نہیں
کچھ نہ کچھ اختیار رہنے دے
ورنہ اڑ جائیں گے پرندے سب
اک شجر سایہ دار رہنے دے
جانے کس موڑ پر جدا ہو جائیں
ہم پہ الفت کا بار رہنے دے
نوچ کر پھینک دے تو یادیں سب
دل مگر داغ دار رہنے دے
میں ترے کام آ بھی سکتا ہوں
تو مجھے ہم کنار رہنے دے
میں ہوں مدت سے تشنہ لب ساغر
مے کدے کا وقار رہنے دے

0
34