| ہم ترستے ہیں عمدہ کھانوں کو |
| موت پڑتی ہے حکم رانوں کو |
| جرم آزاد پھر رہا ہے یہاں |
| بے کسوں سے بھریں یہ تھانوں کو |
| چھپ کے بیٹھے گا تُو کہاں ہم سے |
| جانتے ہیں تِرے ٹھکانوں کو |
| سر پہ رکھتے ہیں ہم زمیں لیکن |
| زیرِ پا اپنے، آسمانوں کو |
| آئے دِن اِن کے بیچ دنگل ہے |
| دیکھو گتّے کے پہلوانوں کو |
| کیا یہ کم ہے کہ بولنے کو زباں |
| مل گئی ہم سے بے زبانوں کو |
| ہسپتال اپنا، اپنے پاس رکھو |
| مت اُکھیڑو مگر گِدانوں کو |
| یہ ہی دھرتی کا سینہ چاک کریں |
| اور روٹی نہیں کسانوں کو |
| اک نیا مسئلہ ہؤا درپیش |
| پھر سے صحرا کے اُونٹ بانوں کو |
| چار سُو سر پِھری ہوا کا راج |
| تہ نہیں رکھنا بادبانوں کو |
| کر کے وعدہ جو کل نہیں آیا |
| بِیچ لائے گا پِھر بہانوں کو |
| ہم نے تھوڑا قلم جہاد کِیا |
| یاد رکھنا ہے اِن ترانوں کو |
| حسنِ اخلاص اور روا داری |
| آؤ ڈھونڈیں پھر اِن خزانوں کو |
| روزے رکھنا تو فرض سب پر ہے |
| ہم مگر سونپ دیں پٹھانوں کو |
| موت بھی یوں ہماری گھات میں ہے |
| صید چُگتا ہے جیسے دانوں کو |
| زندگی قید میں گزاری ہے |
| بھول بیٹھے ہیں اب اُڑانوں کو |
| ہم نے سیکھا ہے آہ بھرنا بس |
| یاد کر کے گئے زمانوں کو |
| اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے |
| اِک کہانی کئی فسانوں کو |
| اتنے مجبور تھے گِرانی سے |
| بیچ آئے ہیں سائبانوں کو |
| اس کو زلفیں بکھیرنا تو تھیں |
| شان بخشی ہمارے شانوں کو |
| سچ کو سچ سے رشید ماپیں گے |
| وہ بھلے تان لیں کمانوں کو |
| رشید حسرت |
معلومات