تجُھ سے شہپر کا تماشا نہیں‌دیکھا جاتا
اِس جھکے سر کا تماشا نہیں‌دیکھا جاتا
بھر لئے آنکھ میں آنسو کہ ہو منظر دُھندلا
ٹُوٹتے گھر کا تماشا نہیں دیکھا جاتا
پیڑ پر جلتے ہوئے گھر نہیں دیکھے جاتے
سوختہ پر کا تماشا نہیں‌دیکھا جاتا ۔
ہم کو آشفتہ سری قیس نہ راس آئے گی
سنگ اور سر کا تماشا نہیں دیکھا جاتا۔۔
توُ غنی ہے سو خزانوں‌ سے عطا کر مالک
مجھ سے در در کا تماشا نہیں‌ دیکھا جاتا
وہ بھلا دل پہ گِرے اشک کہاں دیکھے گا
جِس سے ظاہر کا تماشا نہیں‌دیکھا جاتا
دل کی ڈُگ ڈُگ کو سنیں رقص کریں اور چلیں
زندگی بھر کا تماشہ نہیں‌دیکھا جاتا
عاطف جاوید عاطف

322