خاموش اے ارض مقدس خاموش
خاموش کہ تیرے فرزندان توحید ابھی خواب غفلت میں ہیں
خاموش کہ تیری چیخوں سے سکوں میں خلل ہوتا ہے
خاموش کہ ہم اندھے گونگے بہرے ہیں
خاموش کہ ہمیں فکرِ فردا کے سوا دکھتا نہیں کچھ
خاموش کہ ابھی پیرو جواں محو تماشہ ہیں
اے ارضِ مقدس
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ تیری گلیوں میں بہتا ہے لہو
کہ جس لہو کے چھینٹوں سے تر ہیں دامانِ یہود
تیرے گلشن کی ہر کلی مثلی گئی جانتے ہیں
ماؤں کے بدن سر عام نوچے گئے جانتے ہیں
بہنوں کی ردا کھینچی گئی جانتے ہیں
باردو کے دھماکوں سے اڑتے ہوئے دیکھے ہیں ننھے سے بدن
راکھ ہو چکے ہیں سب سرود و ثمن
اے ارضِ پیمبر
ہم مسلم تو ہیں مگر
افسوس کہ اسلاف کی عظمت سے بے بہرہ ہیں
ہم آج بھی تکتے ہیں راہ کسی مسیحا کا
ہمیں آج بھی امید ہے معجزوں کی
مگر کون بتلائے ہمیں اس دورِ پر فتن میں
معجزے نہیں ہوتے
خاموش اے ارض مقدس ہم شرمندہ ہیں
خاموش اے ارضِ مقدس خاموش

0
8