| چہرہ کتابتِ خطوط میرا سیاہ کر گئی |
| اک غلطی تھی نقطے کی مجھ کو تباہ کر گئی |
| ۔ |
| گھر سے جو آبرو کے ساتھ بیٹی بیاہ کر گئی |
| فخر سے اپنے باپ کی اونچی کلاہ کر گئی |
| ۔ |
| صرصرِ غم چلی مری زندگی میں کچھ اس طرح |
| ہائے کہ گردشوں میں یار وہ شب و ماہ کر گئی |
| ۔ |
| اے بتِ نرم خو جو کام کر نہ سکی خدائی بھی |
| ایک ہی لمحے میں وہ کام تیری نگاہ کر گئی |
| ۔ |
| منکرِ بادشاہ تھی، قتل کی ٹھہری مستحق |
| میرے خدا خدائی بھی کیسا گناہ کرگئی |
| ۔ |
| بر لبِ خاص و عام ہے تجھ سے کہ اے مدثر آج |
| کوئی قرار پیار کا بر سرِ راہ کر گئی |
معلومات