| تشنہ دہن کو پیاس کی شدت نہ مار دے |
| اے شخص! مجھ کو تیری ضرورت نہ مار دے |
| ہوتا ہے جس طرح سے مکافات کا عمل |
| تجھ کو ہمارے بعد محبت نہ مار دے |
| تو بیچ میں نہ آ یہ ترا مسئلہ نہیں |
| تیری یہ گفتگو مری ہمت نہ مار دے |
| جلنے دو اُن کو اور اُنھیں دیکھتے رہو |
| ان منکروں کو بغضِ ولایت نہ مار دے |
| ایسا نہ ہو کہ ہم نہ ملیں عمر بھر کہیں |
| پھر سوچ لو، کہیں ہمیں فرقت نہ مار دے |
| پھر یوں ہوا کہ وقت کا کاسہ الٹ گیا |
| ہم ڈر گئے کہیں ہمیں عُسرت نہ مار دے |
| کہتے ہیں لوگ صبر کا ہوتا ہے میٹھا پھل |
| ٹھہرو، رکو، سنو، تمہیں عجلت نہ مار دے |
| بس اس لیے میں تیرے برابر نہ آ سکا |
| میں سوچتا تھا مجھ کو یہ شہرت نہ مار دے |
| جاتا ضرور طور پہ میں دیکھنے اسے |
| پھر ڈر گیا کہیں مجھے حیرت نہ مار دے |
| ہر شخص اپنا ہوتا نہیں جون جان لے |
| تجھ کو کہیں لحاظ و مروت نہ مار دے |
| جونؔ کاظمی |
معلومات