جینے کی آرزو نہیں مگر اتنا کر تو سکتے ہیں
ہم سکوں سے جی نہ پائے بجا عزت سے مر تو سکتے ہیں
یہ رسمِ دنیا ہی سہی اتنا تو اجازت دے ہم کو
ہم جاں سے جانے والے تیری محفل سے گزر تو سکتے ہیں
یہ مانا کہ ترے مدِ مقابل ہم کچھ بھی نہیں ورنہ
اے جوشِ دریا تیری موجوں میں اتر تو سکتے ہیں
ہم ٹوٹے موتی ہیں کسی تسبیح کے ترے ہاتھوں میں
اب جڑنا تو مقدر میں نہیں لیکن بکھر تو سکتے ہیں
ہم کو نہیں ہے اپنی قسمت سے کوئی گلہ ساغر
ہم نے مانگی ہی نہیں ورنہ دعا سے سنور تو سکتے ہیں

0
16