منزل ملے سلوک کی نوری سفر ملے
تیری خبر جو دے ہمیں وہ باخبر ملے
آتے ہیں غیب سے ہی مرے دل میں یہ خیال
تیرا قرب جو دے مجھے وہ ہم سفر ملے
اجڑا ہوا چمن مرا گلزار کر دے پھر
جو دل کو ذندہ کردے وہ اہلِ نظر ملے
یہ قوم جاگ چکی ہے غفلت کی نیند سے
اے کاش اب تو سننے کو ایسی خبر ملے
دل سے خدا کے سامنے فریاد کیجئے
ہر امتی کو اے خدا سوزِ جگر ملے
دل کی عتیق حسرتیں کس کو سناؤں میں
مدت سے ہے تلاش کوئی داد گر ملے

0
46