| فلک پہ لے گا نہ مُجھ کو زمِیں پہ چھوڑے گا |
| عدم سے لایا گیا تھا وہِیں پہ چھوڑے گا |
| عِبادتوں کا مِری کُچھ نہ کُچھ صِلہ تو مِلے |
| بس اِک نشان سا میری جبِیں پہ چھوڑے گا |
| لہُو پِلا کے جو بیٹا جوان میں نے کِیا |
| وہ گھر سے لا کے مُجھے اور کہِیں پہ چھوڑے گا |
| جو مشکلیں ہیں وہ آسان ہوتی جائیں گی |
| خُدا یہ بات تُمہارے یقِیں پہ چھوڑے گا |
| گُمان ہے یہ تُمہارا کہ دوست مُخلص ہے |
| پڑا جو وقت کہِیں پر، وہِیں پہ چھوڑے گا |
| شِکستہ حال مُجھے اُس نگر کو جانا پڑا |
| سِتارے یہ نِگہِ آبگِیں پہ چھوڑے گا |
| میں جانتا ہُوں اُسے بے ضمِیر اِتنا ہے |
| گُھما کے بات وہ پردہ نشِیں پہ چھوڑے گا |
| اُسے بھی مَلنا پڑے گا کبھی کفِ افسوس |
| مُعاملات جو شامِ حسِیں پہ چھوڑے گا |
| کِسی نے تِیرگی کی مُجھ سے فصل کٹوائی |
| مِلا جو نُور مُجھے بھی وہِیں پہ چھوڑے گا |
| فساد کیسا یہ مِیراث کے لِیئے بھائی |
| یہاں کی چِیز ہے سب کُچھ یہِیں پہ چھوڑے گا |
| مکِیں مکاں کو جو حسرتؔ بدلتے رہتے ہیں |
| مکان دُکھ یہ سبھی اب مکِیں پہ چھوڑے گا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات