وفا کی رسمیں نبھانے والو بتاؤ اتنے اداس کیوں ہو |
ابھی تو پہلی خزاں کی رت ہے ابھی سے ایسے نراس کیوں ہو |
تمہیں خبر تھی وفا کے رستے بچھے ہیں کانٹے ہزار دکھ ہیں |
یہاں پہ ساقی بجھا بجھا ہے یہاں پہ سارے خمار دکھ ہیں |
یہاں کسی کو نہیں میسر سکون دل کا قرار دل کا |
یہاں سبھی کا بنا ہے دشمن خیالِ جاناں غبار دل کا |
یہاں تو مقتل سجا ہے برسوں یہاں سے لاکھوں قتیل نکلے |
عقیل جتنے یہاں پہ آئے سدا یہاں سے ذلیل نکلے |
یہاں پہ سنتا نہیں ہے کوئی کسے سناؤ گے حال دل کا |
یہاں تو اشکوں کا راج ہے اب یہاں ہے جینا محال دل کا |
یہاں رقابت کا جال بُن کر ہزار دشمن ملیں گے تم کو |
تمہیں محبت سے دور کر کے وفا کا دوشی کہیں گے تم کو |
یہاں کی قسمیں یہاں کی رسمیں یہاں کے وعدے سبھی فسانے |
یہاں شکاری نئے ہیں لیکن ہیں طور سب کے وہی پرانے |
ہزار حیلے بہانے کر کے تمہاری الفت کو چھین لیں گے |
تمہاری آنکھوں کے خواب سارے تمہاری راحت کو چھین لیں گے |
تمہاری الفت قدم قدم پر جو کھائے ٹھوکر تو یاد رکھنا |
کبھی نہ گرنا کبھی نہ رونا ہمیشہ خود کو ہی شاد رکھنا |
اگر ہو ممکن تو میری مانو کہ ناز نخروں سے دور رہنا |
حسین سارے ہیں فتنہ پرور حسین لوگوں سے دور رہنا |
معلومات