جب سے دل سے دل مل گۓ ہیں۔
پھر سب کے اصول بدل گۓ ہیں۔
کہ شجر سے کونپل پھوٹی ہے۔
تب کلیاں پھول بھی کھل گۓ ہیں۔
جب سامنے منزل آ گئی ہے۔
اب تیرے خلل بھی نکل گۓ ہیں۔
تو نے تیز ترقی پائی ہے۔
تیرے دشمن بھی مچل گۓ ہیں۔
خاموشی سے سختی کا وقت گیا۔
جو عذاب سے تھے سب ٹل گۓ ہیں۔
اس بار بہار کے آنے سے۔
خزاں کے سب ساۓ ڈھل گۓ ہیں۔
نورانی پھیلی ہے اب ہر سو۔
خوشی سے اب وہ بھی اچھل گۓ ہیں۔

0
27