بس کہ کچھ چہرے ایسے بھی تھے دکھائے سے ہو گئے
آشنا تھے وہ لوگ جو اب پرائے سے ہو گئے
ہم نشیں مجھ سے پوچھتے ہیں مرے دل کا حال بھی
حالِ دل کیا بتلائیں سمجھو ستائے سے ہو گئے
ایک شب میری سوئی آنکھوں میں کوئی آیا کہ بس
خواب جتنے بھی تھے ہوا یوں چرائے سے ہو گئے
گو ذرا سی میں بات پر خود سے روٹھا جاتا ہوں کیوں؟
ایسے لگتا ہے جیسے کچھ ہم مٹائے سے ہو گئے
ماضی کی کوئی بات کیا یاد آئی جیسے مرے
بیھٹے بیھٹے ہی دل کے ارماں جلائے سے ہو گئے
شعر کہتے کہتے یہ جانا کہ میرے الفاظ بھی
ہر کسی کے دل میں محبت بنائے سے ہو گئے
ذکر اُن کا پہروں کروں، فکر اُن کی صدیوں کروں
ہم کہ اُن کی یادوں میں جیسے سمائے سے ہو گئے
کامران

0
8