وہ ہم سے پوچھتے بے جا یوں ستایا کیوں
جب عشق ہی نہیں تھا ہم سے جتا یا کیوں
جب بار کو یہ اٹھا کر پھینکنا ہی تھا
پھر برسوں بوجھ الفت کا یہ اٹھایا کیوں
ہر گل ہے یہ دہر میں ہونے فنا تو پھر
خوشبو کو گلوں کی خود میں ہے بسایا کیوں
جو ہر طرف ہے چرچا اعمال کا مرے
ظالم کو راز دل کا تیرے بتایا کیوں
شاید کسی مصیبت کی ہے جرس بجی
ہر ایک آنکھ میں یوں ڈر ہے سمایا کیوں
یادوں کا جو سرہانے تھا میرے اک چراغ
بزدل بڑی ہواؤں نے سر اٹھایا کیوں
اب ہم کو اپنی دھڑکن کا بھی پتہ نہیں
پہرہ عبید رحلت نے یہ بٹھایا کیوں

0
78