| دور تھا ابنِ علی کُنبے کو لائے کربلا |
| گُونجتی ہے اب بھی کانوں میں صدائے کربلا |
| پِھر چراغ اُس نے بُجھایا، برملہ سب سے کہا |
| ہے جِسے بھی جان پیاری چھوڑ جائے کربلا |
| وہ جِسے تھوڑا بھی شک ہے عظمتِ اسلام میں |
| وہ مُخالِف جائے، جا کر دیکھ آئے کربلا |
| جو حُسینی ہے اسے سر کا کٹانا سہل ہے |
| اب پشیماں ہیں یذِیدی، مُسکرائے کربلا |
| پیاس کی شِدّت تھی ایسی پِپڑِیاں ہونٹوں پہ تِھیں |
| ہائے وہ کُنبہ نبیﷺ کا، ہائے ہائے کربلا |
| جُھوٹے دعووں سے عقِیدت کے بھلا ہوتا ہے کیا؟ |
| دِل وہی روشن ہے جو ہے مُبتلائے کربلا |
| حضرتِ شبیر نے سجدے میں کی جو اِبتدا |
| حشر تک ہو گی نہِیں اب اِنتہائے کربلا |
| جو بھی جیسے عارضے میں مُبتلا ہو دوستو |
| کام آئے آج بھی خاکِ شِفائے کربلا |
| قافلہ لُٹ پُٹ کے جب لایا گیا دربار میں |
| یُوں لگا حسرتؔ کہ جیسے ساتھ لائے کربلا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات