نکھر گئی ہے یہ صورت گلاب کے جیسے
تو زُلف رُخ پہ گرا لو حجاب کے جیسے
وہ پاس ہوتا اُسے آنکھ میں چھپا لیتا
میں روز پڑھتا اُسے اِک کتاب کے جیسے
سنا ہے حُسن کی خیرات کرنے والے ہو
وہ آسماں سے جو گرتا ہے۔ آب کے جیسے
ذرا سی دیر میں وہ شور تھم گیا جیسے
کہ یومِ حشر بپا ہو حساب کے جیسے
یہ روشنی جو اگر مجھ کو راستہ دیتی
میں تیری راہ پہ چلتا۔ثواب کے جیسے
سید ہادی حسن

0
37