سکونِ قلب اطمینان پایا
خدا کا ہم نے جب وجدان پایا
ہماری زیست کا مقصد عبادت
خدا کا تو یہی فرمان پایا
خدا کے ذکر سے لب ہیں معطّر
ہے جب سے قلب نے عرفان پایا
جو کی خلقِ خدا پر ہم نے شفقت
تو اس کے حق میں سب قرآن پایا
اگر بانٹیں کسی کو ہم نے خوشیاں
مسرّت کا ہے خود سامان پایا
نہیں ہے گر عمل باتیں فقط ہیں
تعلّق پھر فقط بے جان پایا
نہیں ممکن محبّت ہم کریں پر
وہ اب تک یہ نہ ہو پہچان پایا
کٹھن ہوتی ہیں سب نیکی کی راہیں
چلے تو ہر قدم شیطان پایا
بلندی پر اگر اپنی ہو منزل
ہے کس نے راستہ آسان پایا
عجب حسن و محبّت کی کہانی
کہ زنداں میں مہِ کنعان پایا
خزانے اشک بن کر دل سے نکلے
جو موتی کو سرِ مژگان پایا
اسی ظالم سے دردِ دل ملا تھا
اسی سے درد کا درمان پایا
نہ بخشے ہم گئے تو فائدہ کیا
اگر قسمت سے ہے رمضان پایا
جو بیٹھے صحبتِ صادق میں طارق
وہیں سے ہم نے سب فیضان پایا

0
59