اصلاح کے ہی بن گئے افکار، معترض
تردیدی زاویہ ہو تو اقدار، معترض
مشکل سے دیدہ ور ملے گا اس چمن میں پر
ہر دلعزیز ہے، وہی سالار معترض
انداز ہے زمانہ کا برعکس دوستو!
جس کا نہ کوئی والی ہے، نادار معترض
دور جدید کی نئی ایجاد دیکھئے
دیتے ہوں سب حوالہ، وہ کردار معترض
مزدور انتظار تو تعطیل کا کریں
مالک کو پر دنوں میں ہے، اتوار معترض
حاکم کو احتجاج کبھی بھائے گا نہیں
ہو نعرہ بازی کا کہیں اظہار، معترض
رشوت کے عادی لوگوں کو ناصؔر ہمیش سے
رہتا ہے ان کو عدل کا معیار معترض

0
40