اپنے سفر میں تجھ کو کئی بار دیکھ کر
رُکتا رہا میں راستہ دُشوار دیکھ کر
شاید اُسے پسند نہ آئے یہ سر کشی
شاید وہ روک لے مجھے اس بار دیکھ کر
جاتا ہے دل ہمارا بھی ہو کر حریصِ زخم
اُس خوبرُو کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
لب پر ہمارے ضبط کا تھا قُفلِ خامشی
اور آنکھ میں سکوت تھا انکار دیکھ کر
حق پر کھڑا ہوں اور میں حق کے لیے لڑا
مُکرے نہ کوئی مجھ کو سرِ دار دیکھ کر
جونؔ کاظمی

0
35