اب ناچتے بھی ہیں ضمیر یہاں بے حجاب ہو کر
کا لے دِکھتے ہیں اجلے چہرے بے نقاب ہو کر
جی خلوص و وفا کے موتی کم ہی ملتے ہیں
انمول ہو جاتے ہیں ہیرے نایاب ہو کر
جب سے ہوا ہے مرا دل درد آشنا تب ھی سے تو
جی رُوٹھے ہوئے ہیں مجھ سے خواب بے خواب ہو کر
جب ہاتھ و پاؤں دھوکا دینے لگتے ہیں
غم بھی ہنسنے لگتے ہے جی بے حساب ہو کر

0
54