یہ کس نے نامہ لکھا ہُوا ہے؟
کہ بار آنسو بنا ہُوا ہے
لہو میں تر ہیں نگاہیں میری
عجب سماں یہ بندھا ہُوا ہے
رمین تپتی ہَوا کی مانند
زمیں پہ کیا ماجرا ہُوا ہے؟
یہ تم سے الفت کی ہے علامت
کہ پیراہن بھی سلا ہُوا ہے
دلِ نگر میں ہے شور برپا
اک اور پیکر مرا ہُوا ہے
تعشقانہ مزاجِ شوخی
تو پھر بھی ہم سے جڑا ہُوا ہے
اے جون! تم کیا ہو ابرِ جوشاں؟
دیا بھی تم سے چھپا ہُوا ہے
جونؔ کاظمی

0
49