جب کبھی موسمِ بہار آیا
اُجڑے گلشن پہ پھر نکھار آیا
شکل و صورت وہی رہی اپنی
اِسْتِحالَہ کبھی کبھار آیا
مجھ کو حالات نے بدل ڈالا
کس لئے خود کو تُو سنوار آیا
اِستِمالت پہ یار نے جھڑکا
پھر اَساول ہے اشکبار آیا
آنسو اشکِ کباب ہیں لیکن
کب سحر خیزی کا شعار آیا
اِستِراحت کی اِستِعانت ہے
زندگی بھر نہیں قرار آیا
تجھ کو تنویر مل گئی منزل
میرے حصے میں انتظار آیا
تنویرروانہ

158