| مجھ کو محض نفرت ہے وقت کے اسیروں سے |
| یا مجھے ہے بیزاری خاص بد ضمیروں سے |
| روشنی ہیں سورج کی آپ، مَیں سیاہی ہوں |
| ہے مرا تقابل کیا آپ سے امیروں سے |
| زندگی کے رستے پر دیکھ بھال کر چلنا |
| واسطہ نہ پڑ جائے آپ کا شریروں سے |
| بے شمار دولت سے نیند تو نہیں آتی |
| نیند کا تعلق ہے ہاتھ کی لکیروں سے |
| آستین زادے بھی اس کے ساتھ تھے لیکن |
| چھد نہیں سکا دامن آسماں کے تیروں سے |
| ایک سانس باقی ہے دامنِ شکستہ میں |
| کیا حساب لیتی ہو زندگی فقیروں سے |
| (ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات