رنگ بکھریں جو فلک پر وہ دھنک ہوتی ہے |
ہُوک اُٹھتی ہے جو دل میں وہ کسک ہوتی ہے |
وہ جو سونے نہیں دیتی شبِ تنہائی میں |
اپنے پوشیدہ گناہوں کی کھٹک ہوتی ہے |
شور ہوتا ہے مرے کانوں میں سنّاٹے سے |
غور کرتا ہوں تو وہ دل کی دھڑک ہوتی ہے |
خوف لاحق ہے سزا کا نہیں مائل بہ گناہ |
جو بچا دیتی ہے شعلوں کی لپک ہوتی ہے |
حرص تھی ہی نہیں جنّت کی کہ نیکی کرتا |
میرا مقصد تو فقط اس کی جھلک ہوتی ہے |
میں نے بھی سیکھ لیا تم سے معافی کا طریق |
درگزر کر نے سے کیا میری ہتک ہوتی ہے |
تُو عطا کرتا ہے اتنا نہ سنبھالا جائے |
اور مانگوں بھی تو کیا مجھ کو جھجک ہوتی ہے |
طارق اس دور میں سادہ ترے جیسے کم ہیں |
ان کی تعداد تو آٹے میں نمک ہوتی ہے |
معلومات