| وعدہ بھی کوئی ٹھان رہا ہے، اچھا خیر |
| دل بات نہیں مان رہا ہے، اچھا خیر |
| میں دوست جسے سمجھا، وہی دشمن نکلا |
| وہ دوست مری جان رہا ہے، اچھا خیر |
| اب کوئی بھی مخلص نہیں ہو گا، دیکھو تم |
| ہر اک کا یہ اعلان رہا ہے، اچھا خیر |
| دیکھو کہ وہ بھی شخص ہے، کتنی حسرت سے |
| غم سے خوشی بھی چھان رہا ہے، اچھا خیر |
| آیا ہے چلا جائے گا، خوش کر جائے گا |
| غم میرا بھی مہمان رہا ہے، اچھا خیر |
| یاں مخلصی ایسی ہے، مرا دل کہتا ہے |
| اِس نفع میں نقصان رہا ہے، اچھا خیر |
| آخر مجھے مل جاتا ہے حد سے بڑھ کر وہ |
| جب بھی کوئی فقدان رہا ہے، اچھا خیر |
| یوں لوگ بدل جاتے ہیں ایسے پل بھر میں |
| دل اِس پہ بھی حیران رہا ہے، اچھا خیر |
| کامران |
معلومات