| کئی برس ہوئے میں پھرتا تھا |
| بوجھ اُٹھائے جیون کا |
| نگری نگری |
| شہروں شہروں |
| خاک اُڑائے پھرتا تھا |
| جوگی ، سنیاسی بھی ملے |
| پیر ، فقیر بھی خوب ملے |
| کبھی مسجد میں |
| کبھی مندر میں |
| کبھی دُور کسی |
| صحرائی بستی میں |
| کبھی پربتوں کی |
| اونچی چوٹی پہ |
| بہت لوگ ملے |
| کئی سنجوگ ملے |
| پر کوئی نہ ملا ایسا مُجھے |
| اُسکی سیڑھی چڑھاتا جو |
| اُس تک راہ دکھاتا جو |
| پھر بیٹھا تھا مایوس بہت |
| ہار کر تھک کر چُور بہت |
| کہ اپنے اندر جھانک بیٹھا |
| ڈر کر دور میں بھاگا تھا |
| میرے اندر اک سمادھی لگی تھی |
| اک سادھو بیٹھا تھا خاک پر |
| اندر ھُو کی آؤاز بھی تھی |
| اندر کُل کا راگ بھی تھا |
| اندر حق کی صدائیں تھیں |
| اندر درویش کا رقص بھی تھا |
| اندر تنہائی بھی تھی |
| تنہائی کے سات ہیں رنگ |
| ہر اک رنگ کا اپنا ہی رنگ |
| تنہائی میں خوفٰ خُدا تھا |
| تنہائی میں یادِ خُدا تھی |
| تنہائی میں ابلیس بھی تھا |
| تنہائی میں شاہِ قیس بھی تھا |
| تنہائی میں سجدے تھے |
| تنہائی میں یاد کے تیور عجب |
| تنہائی میں عشق کے بھید الگ |
| اور تنہائی میں جانا میں نے |
| مدت بعد یہ مانا میں نے |
| جسے قریہ قریہ ڈھونڈتا رہا میں |
| “میرے اندر وہ خُدا بھی تھا” |
| فیصل ملک!! |
معلومات